Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

  ہیلو……ہاؤ آر یو؟“ شیری سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا اس کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر مسرتوں کا چراغاں تھا۔ حسب عادت پری کے چہرے پر ناپسندیدہ سنجیدگی ابھری تھی۔ ”ڈھونڈ لیا میں نے آخر آپ کو مس پری! آپ نے تو پوری کوشش کی تھی مجھے سے چھپنے کی کل ڈنر پر میں نے بے حد مس کیا آپ کو اور آپ میرا خیال کیے بغیر اپنی گرینی کے گھر چلی گئیں۔“ وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے ایسے دوستانہ لہجے میں کہہ رہا تھا۔
جیسے ان کے درمیان بہت اچھی فرینڈ شپ ہو۔
”مجھے نانو کے ہاں آنا تھا پھر میں نے آ پ سے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا کہ میں آپ کے ہاں ڈنر پر آؤں گی اور پلیز اب آپ جائیں یہاں سے۔“ وہ رش لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
”میں جاؤں اور آپ مجھ سے روپوش ہو جائیں؟ نو……نو……نو میں یہ رسک افورڈ نہیں کر سکتا اب۔


“ شیری بے حد ایکسائیٹڈ ہو رہا تھا۔

”روپوش ہو جاؤں گی، کیا مقصد ہے آپ کا اس بات سے؟“ اس نے شیری کو غصے سے گھورا۔
”پلیز…پلیز آپ غصہ مت ہوں، میں آپ کی ناراضی برداشت نہیں کر سکتا۔“ اس کے بگڑے تیور دیکھ کر وہ بوکھلا گیا تھا۔ اس کے اس طرح کھڑے ہونے سے قریب سے گزرنے والے لوگ ان کی طرف متوجہ ہونے لگے تھے۔
”پلیز پری! اس طرح کھڑی کیوں ہو گئی ہیں آپ…لوگ دیکھ رہے ہیں کیا فیل کریں گے ہمارے بارے میں؟“ اردگردسے گزرنے والے لوگوں کی نظریں اس کے اوپر تھیں اور اکا دکا نوجوان وہاں رک کر معاملے کو جاننے کی سعی کر رہے تھے اور اس صورت حال سے وہ کنفیوز تھا۔
”میرے بارے میں نہیں صرف آپ کے بارے میں، آپ یہاں سے چلے جائیں ورنہ میں نے یہاں کسی کو یہ بتایا کہ آپ مجھے تنگ کر رہے ہیں پھر جو آپ کا حشر ہو گا آپ سوچ بھی نہیں سکتے آپ کی خیریت اسی میں ہے آپ یہاں سے فوراً چلے جائیں۔“ اسی کا لہجہ سرد اور سپاٹ تھا وہ کہہ کر آگے بڑھ گئی تھی شیری کے چہرے پر اس کو دیکھ کر جو روشنیاں جل اٹھی تھیں وہ کسی موم بتی کی مانند بجھ گئی تھیں جن کا دھواں اس کے چہرے پر پھیلنے لگا تھا لیکن دل کسی ضدی بچے کی مانند بے قرار ہو کر مچل رہا تھا وہ بے اختیار انداز میں اس کی طرف بڑھا اور وہ جو ابھی اس کے سامنے ہی بوتیک کی طرف بڑھی تھی اب وہ وہاں نہیں تھی۔
اس نے تمام بوتیکس دیکھ ڈالیں شاپس کے اندر دیکھتا پھر ا مگر وہ ایسے غائب ہوئی گویا وہاں آئی ہی نہ تھی۔ سیکنڈ فلور سے وہ تھرڈ فلور پر تیزی سے بڑھا تھا وہ کراکری شاپ پر دو بھاری بھر کم خواتین کی اوٹ میں بیٹھی تھی پری نے اسے ایکسلیٹر سے اوپر جاتے دیکھ کر سکون کا سانس لیا اور نانو کی طرف متوجہ ہوئی جو سیلز مین سے سامان کار میں رکھوانے کا کہہ رہی تھی۔
”چلو اب تمہاری شاپنگ ہو جائے پری! یہاں بوتیک پر اعلیٰ معیار کے ڈریسز ہوتے ہیں۔“ ملازم ان کا خریدا ہوا سامان کار میں رکھنے کے لیے گیا تو وہ اس سے مخاطب ہوئی تھی۔
’سوری نانو! مجھے کچھ نہیں خریدنا، آپ گھر چلیں اب۔“
”یہ کیا بات ہوئی بیٹا! کبھی کبھی تو ایسا موقع ملتا ہے پھر لڑکیوں کو کریز ہوتا ہے شاپنگ کا آپ نے ابھی کچھ لیا ہی نہیں ہے اور مجھے بھی شاپنگ کرنی ہے ابھی۔
“ نانو حیرانی سے اس سے مخاطب ہوئی تھیں۔
”میرے سر میں درد ہو رہا ہے نانو! میں اب مزید یہاں رک نہیں پاؤں گی۔“ اس نے کچھ ایسے لہجے میں کہا کہ نانو نے فوراً ہی فکر مند ہو کر واپسی کے لیے قدم بڑھاتے ہوئے اس سے کہا۔
”ہم سیدھے اسپتال چلتے ہیں۔“
”ارے نہیں نانو جان! معمولی سا درد ہے کچھ دیر آرام کروں گی تو ٹھیک ہو جاؤں گی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
“ وہ شیری کے تھرڈ فلور سے نیچے آنے سے قبل یہاں سے نکل جانا چاہ رہ تھی اور ایسا ہی ہو انانو نے حسب عادت اس کی بات مانتے ہوئے باقی شاپنگ کا ارادہ ملتوی کیا اور اس کے ساتھ واپسی کے لیے چل پڑیں۔ پری نے گیٹ سے نکلتے ہوئے نانو سے نگاہ بچا کر پیچھے دیکھا تھا۔ شیری نیچے نہیں آیا تھا ابھی وہ گہرا سانس لے کر کار کی طرف بڑھ گئی جہاں ڈرائیوران کا منتظر تھا۔
”کیا چاہتا ہے شیری……کیوں میرے پیچھے پڑ گیا ہے وہ؟ مجھے رسوا کرنے میں کیا کسر چھوڑی ہے اس نے میری فوٹوز اتار کر ممی کی نگاہوں میں مجرم بنا دیا اور اب بھی نا معلوم کس قسم کی دیوانگی میں مبتلا ہے اور ساتھ میں مجھے بھی پاگل کرنے کے ارادے لگ رہے ہیں۔“ کارسبک انداز میں رواں تھی وہ سیٹ کی بیک سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے شیری کے بارے میں سوچ رہی تھیں جس کے انداز میں ایسی کوئی انہونی بات تھی ایک عجیب سا احساس تھا جس نے اس کی حساس طبیعت کو کسی انجانے سے خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔
”سر میں درد زیادہ ہے پری! ضد مت کرو ڈاکٹر سے چیک اپ ضرور ی ہے، معمولی سے درد کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔“ عشرت جہاں اس کے سفید چہرے کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
”ڈاکٹر کے ہاں جانے کی کیا ضرورت ہے نانو؟ میں ٹھیک ہوں رئیلی نانو! مجھے انجکشن سے بے حد ڈر لگتا ہے اور ڈاکٹر کی میڈیسن سوئی چبھونے کے بنا تو کبھی کمپلیٹ نہیں ہوتی ہے۔
“ اس نے آنکھیں کھول کر مسکراتے ہوئے کہا تو عشرت جہاں نے ہنستے ہوئے اسے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔
”اوہ مائی بے بی! یہ ڈر آپ کے بچپن سے دل میں بیٹھ گیا ہے۔“
پورے شاپنگ سینٹر کے اس نے ایک نہیں کئی چکر لگائے تھے دیوانوں کی طرح ہر چہرے کو کھو جا تھا، مگر گوہر مقصود ہاتھ نہ آیا تھا وہ بڑے ٹوٹے دل سے وہاں سے نکلا اور کار گویا ہواؤں کے دوش پر پرواز کر رہی تھی۔
اس کے اندر آگ بھڑ کی ہوئی تھی ہر سمت دھواں ہی دھواں دکھائی دے رہا تھا۔ پری کے سخت روئیے نے اس کو مضطرب کر دیا تھا۔
نفرت کا دھواں…بے مروتی کا دھواں… بے حسی کا دھواں… نا معلوم کس طرح وہ گھر پہنچا تھا چوکیدارنے دور ہی سے اس کی فاسٹ ڈرائیونگ دیکھ کر گیٹ وا کردیا تھا۔ کار سے نکل کر اس نے لات مار کر ڈوڑ بند کیا اور دھپ دھپ کرتا ہا آگے بڑھ گیا تمام ملازم سہم کر ادھر اُدھر ہو گئے تھے اس وقت مسٹر اینڈ مسز عابدی گھر سے باہر تھے وہ سیدھا اپنے کمرے میں آیا اور جوتوں سمیت بیڈ پر لیٹ گیا۔
”کیوں کرتی ہو تم میرے ساتھ اس قدر زیادتی ؟ پری……پری……آئی لو یو سو مچ…آئی لویو! بہت محبت کرتا ہوں میں تم سے اور تم ؟ سمجھتی نہیں ہو……ہر بار میری تذلیل کرتی ہو۔“ وہ بیڈ پر اونڈھا لیٹا زور زور سے بڑبڑا رہا تھا اور بڑ بڑا تے ہوئے اس کی آواز رندھ گئی وہ خوب صورت خدوخال اور وجیہہ صورت شہریار جو اپنے آگے کسی کو خاطر مین نہ لاتا تھا۔
جس سے بات کرنے کے لیے ماں باپ کو بھی اپنا لہجہ نرم رکھنا پڑتا تھا۔ وہ اکھڑ مزاج اور بے پروا شخص بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کررونے لگا بند کمرے میں اس کی بھاری آواز گو نجنے لگی۔
ٍ”میں نے تم سے محبت کی ہے میں نے یعنی شہریار عابدی نے اور بدلے میں تم کو بھی مجھ سے محبت کرنی پڑے گی ہاں! تم کو مجھ سے محبت کرنی ہو گی میں سکھاؤں گا تم کو محبت کرنا تمہیں میری زندگی میں میری بن کر آنا ہو گا۔
یہ میرا اپنے آپ سے وعدہ ہے۔“ وہ روتے ہوئے بڑ بڑا رہا تھا۔
###
چوتھے د کا سورج نکلا مگر اس اندھیری سیلن زدہ کوٹھری کی دبیز دیواروں کے اندر اس کی روشن کرنیں نہ پہنچ سکی تھیں۔ بھوک پیاس اور صدموں نے مل کر اس کو قریب المرگ کر دیا تھا۔ وہ نیم بے ہوش تھی نقاہت کے مارے ہلنے جلنے کی بھی سکت نہ رہی تھی معا کوٹھری کے آہنی گیٹ کی آواز آئی تھی اور کوئی اندر آیا تھا۔
ایک مانوس سی مہک اردگرد پھیل گئی تھی۔ اس کے بے دم ہوتے احساسات میں ہل چل سی پیدا ہونے لگی۔
”رُخ……رُخ!“ یہ ساحر کی آواز تھی۔
ماہ رخ نے ایسے تڑپ کر آنکھیں کھولی تھیں گویا اس کے جسم سے پرواز کرتی روح پوری قوت سے دوبارہ بدن میں حلول کر گئی ہو۔نیم مردہ جسم میں ایک برق سی بھری تھی اور وہ اٹھ کر بیٹھی اور بڑے جنونی انداز میں اس نے ایک ہاتھ سے ساحر کا گریبان پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے چہرے کو لہولہان کر دیا یہ سب لمحوں میں ہوا تھا۔
ساحر اور اس کے قریب کھڑی حبشی ملازمہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بھوک پیاس سے نڈھال اس کمزور سی لڑکی میں اتنی طاقت آجائے گی؟ پہلے تو وہ اپنا بچاؤ نہ کر پایا لمحوں میں ہی ماہ رخ نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔
”میں تجھے جان سے ماردوں گی کمینے! تُو نے میری زندگی برباد کر دی مجھے دھو کہ دیا……بیچ دیا مجھے یہاں لا کر……“ ساحر تو اس تابڑتوڑ حملوں سے ایسا بوکھلایا کہ اپنا دفاع نہیں کر سکا۔
ساحر کے چہرے پر خون بہتا دیکھ کر ملازمہ نے آگے بڑھ کر بپھری ہوئی مارخ کو دھکا دے کر اس سے دور کیا ملازمہ کے زور دار دھکے نے مارخ کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیا وہ بے ہوش ہو کر گی تھی۔ساحر نے رومال سے چہرہ صاف کرتے ہوئے حقارت آمیز نگاہ سے زمین پر پڑی بے ہوش ماہ رخ کو دیکھا اور کوٹھری سے باہر نکل آیا چہرے اور گردن پر جہاں جہاں ماہ رخ کے ناخن لگے تھے وہاں سخت جلن و تکلیف ہو ریہی تھی۔
حارث کر مانی کے ملازم نے اس کو فرسٹ ایڈدی تھی۔
”آپ ابھی ریسٹ کریں تھوڑی دیر بعد آپ ریلیکس ہو جائیں گے۔“ ملازم فرسٹ ایڈبکس اٹھا کر بولا۔
”شکریہ! آپ کا۔“ وہ مسکرا کر گویا ہوا۔
”ویلکم جناب! آپ مہمان ہیں آپ کا خیال رکھنا ہماری ڈیوٹی ہے آپ سے سر کچھ دیر بعد میٹنگ کریں گے تب تک آپ آرام کریں۔“ ملازم چلا گیا ساحر بھی آرام کرنے لگا اس وقت اس کا چہرہ ہر قسم کے احساسات سے عاری تھا وہ آنکھیں بند کر کے لیٹا تو اے سی کی ٹھنڈک اور پر سکون ماحول نے اسے نیند کی وادیوں میں پہنچا دیا تھا اسے ابھی سوئے زیادہ دیر نہیں گزری تھی۔
ملازم نے آکر اسے اطلاع دی تھی کہ شیخ حارث کرمانی نے اسے بلایا ہے وہ ملازم کے ہمراہ شیخ حارث کے عالی شان لیونگ روم میں داخل ہوا تو وہ صوفے پر بڑے کروفر سے گردن اکڑاے بیٹھا تھا۔
”آؤ ساحر! بیٹھو۔“ وہ مہنگے ترین سگار کا کشن لیتا ہوا ساحر سے گویا ہوا۔ ساحر موٴدب انداز میں دوسرے صوفے پر بیٹھا تھا۔
”ہوں‘ تمہارا چہرہ اس نے خاصا بگاڑ یا ہے۔
“ وہ اس کے چہرے پر خموں کے سرخ سرخ نشانات دیکھ کر بولا۔
”جی حارث کرمانی! مجھے احساس نہ تھا تین دن کی بھوک و پیاس سے نڈھال ہونے کے باوجود وہ زخمی شیرنی کی طرح مجھ پر حملہ کر دے گی۔ سچ بتاؤں کہ میں اس کے خونخوار انداز سے اس قدر خوف زدہ ہوا کہ اپنا دفاع ہی نہ کر پایا۔“ ساحر نے خفت سے مسکراتے ہوئے موٴدب لہجے میں جواب دیا۔
”عورت تو ایک ایسی پہیلی ہے جس کو کوئی بوجھ ہی نہیں سکتا کب کیا کر گزرے کوئی جان نہیں سکتا اس کی فطرت کو اپنے باطن میں ان گنت اسرار پوشیدہ رکھے بہت پُر اسرار ہستی ہے۔
“ گہراکش لیتے ہوئے حارث نے کہا تھا۔
”جی حارث صاحب! درست کہہ رہے ہیں آپ۔“
”فی الحال مجھے ابھی میٹنگ میں جانا ہے تم کو بلانے کا مقصد یہ ہے اس لڑکی سمجھاؤ اس کو میری خواہشات پر چلنا ہو گا۔ راج کرے گی وہ یہاں اور اگر میری باتوں سے انحراف کرے گی تو اسی صحرا کے کسی گوشے میں زندہ دفن کر دے جائے گی۔“

   1
0 Comments